ٹھرکی باس اور مجبور لڑکی – ایک تلخ حقیقت پر مبنی کہانی
تحریر: فرزانہ خان
السلام علیکم، گھر کی مجبوریوں کی وجہ سے میں ایک انٹرنیشنل کمپنی میں نوکری کرنے لگی۔ لیکن وہاں کا باس ٹھرکی طبیعت کا تھا۔ کہتا کہ میرے ساتھ دوستی کرو، پھر پروموشن ہوگی۔ ادھر میں نے باس کو خوش کیا اور ادھر میری ترقی ہونے لگی۔
چند دن بعد شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ میرا منگیتر میرا کزن تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ شادی کی رات یہ راز نہ کھل جائے کہ میں پہلے ہی اپنی عزت کھو چکی ہوں۔ جیسے ہی سہاگ رات کو وہ میرے قریب آیا، تو اس نے خود ایک ایسا انکشاف کیا کہ میرے قدموں تلے زمین نکل گئی۔ اس نے کہا: ۔۔۔
"نازیہ، تمہاری تو موجیں ہیں۔ ترقی پر ترقی ہو رہی ہے، سب دفتر والے مجھے مبارکباد دے رہے تھے۔"
ابھی میں ان کے لہجے میں چھپی تلخی کو سمجھ ہی رہی تھی کہ اماں کا فون آیا۔ اماں کہنے لگیں: "جلدی گھر لوٹ آؤ، تمہارے سسرال والے آ رہے ہیں۔" یہ سنتے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں تو یہ سب بھول ہی گئی تھی کہ میری منگنی میرے چچا زاد سے ہوئی تھی۔ لیکن وہ اچانک گھر پر کیا کرنے آ رہے تھے، میں نہیں جانتی تھی۔
میں نے اماں سے پوچھا: "اماں، ان کے آنے کی خیریت تو بتائیں؟"
اماں بولیں: "بس گھر آ جاؤ، اگر میں جانتی ہوتی تو تمہیں کیوں فون کرتی؟ اب تمہارے ابا تو ہیں نہیں جو ان سے بات کریں، ہم دونوں ماں بیٹی ہی ہیں جو انہیں سنبھال سکتے ہیں۔ نہ جانے وہ کیا کہنے آ رہے ہیں۔"
میرے دل میں ایک نئی پریشانی نے جنم لیا کہ کہیں وہ شادی کی تاریخ تو طے کرنے نہیں آ رہے۔ ابا کی وفات کو بھی چھ مہینے ہو چکے تھے۔ میں نے گہرا سانس لیا اور گھر جانے کی تیاری کی۔
ابھی میں نکلنے ہی والی تھی کہ باس نے آواز دی: "نازیہ! کہاں جا رہی ہو؟"
میں نے گہرا سانس لے کر کہا: "سر، آج مجھے جلدی جانا ہے۔"
وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگے اور بولے: "کیا وجہ ہے آج اتنی جلدی جانے کی؟"
میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ حقیقت بتاؤں، کیونکہ میں جانتی تھی اگر سب کہہ دیا تو نوکری چلی جائے گی۔ میں نے بس کہا: "اصل میں اماں کی طبیعت کچھ خراب ہو گئی ہے، اسی لیے گھر جانا پڑ رہا ہے۔ اللہ خیر کرے۔"
پھر میں نظریں چرا کر مسکرائی اور فوراً گھر روانہ ہو گئی۔
گھر پہنچی تو سسرال والے پہلے ہی وہاں موجود تھے۔ اماں نے آواز دی: "نازیہ بیٹا! آؤ، تمہاری چچی بلا رہی ہے۔"
میں گہرا سانس لے کر چچی کے پاس جا بیٹھی۔ وہ صدقے واری ہونے لگیں اور کہنے لگیں: "بھابھی! اب تو بہت وقت گزر چکا ہے، میں نازیہ کو اپنی بہو بنانا چاہتی ہوں۔ جلدی شادی کی تاریخ دے دیں، اب مزید انتظار نہیں کرنا چاہتی۔"
میرے اندر خوف کی ایک لہر دوڑ گئی۔ میں جانتی تھی کہ میں جس راستے پر چل پڑی ہوں اس کی حقیقت صرف میں جانتی تھی۔ میں نے خوف زدہ آنکھوں سے اماں کی طرف دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے، جیسے وہ مجھے جدا کرنے سے ڈر رہی ہوں۔ لیکن میرا خوف تو کسی اور وجہ سے تھا۔
میں نے اماں کو اشارہ کیا کہ ذرا وقت لے لیں۔ تب اماں نے کہا: "میں کل تک جواب دیتی ہوں، بیٹی کا معاملہ ہے، جلد بازی نہیں کرنا چاہتی۔"
چچی نے زور دیا: "بھابھی! جلدی کس بات کی؟ بھائی صاحب نے آج سے تین سال پہلے ہی نازیہ کا رشتہ بلال سے طے کیا تھا۔ اب تو تین سال گزر گئے، اب مجھے بہو چاہیے۔ آپ جلدی سوچ کر بتائیں۔"
چچی جا چکیں تو اماں میرے پاس آئیں اور کہنے لگیں: "بیٹا! شادی کرنی تو ہے ہی۔ آج نہیں تو کل، تمہیں رخصت ہو کر جانا ہی پڑے گا۔ پھر تم نے مجھے صبر کرنے کو کیوں کہا؟"
میرے دل میں جو خوف چھپا تھا، اس کے باعث میں نے کہا: "اماں! میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ میں آپ کے ساتھ ہی رہنا چاہتی ہوں۔"
اماں بولیں: "پاگل مت بن بیٹی! بیٹیوں کو تو رخصت ہونا ہی پڑتا ہے۔ وہ ساری زندگی ماں باپ کے گھر نہیں رہ سکتیں۔ میں بھی تو شادی کر کے تمہارے ابا کے ساتھ آئی تھی۔"
میں اپنے اصل خوف کی وجہ اماں کو نہیں بتا سکی۔ خاموش رہی۔ اگلے روز اماں نے ایک مہینے بعد کی تاریخ طے کر دی۔
مہینہ ایسے گزرا جیسے پر لگے ہوں۔ دفتر میں بھی میں نے اپنی شادی کا ذکر نہیں کیا۔ شادی کے دن میں دلہن بنی، سب میری تعریف کر رہے تھے، لیکن میرے دل میں ڈر تھا۔ مجھے یقین تھا کہ میں وہاں ایک رات بھی نہیں گزار سکوں گی۔
کمرے میں اماں آئیں تو میں ان کے سینے سے لگ کر زور زور سے رونے لگی۔
اماں کو لگا شاید میں صرف اداس ہو گئی ہوں، اسی لیے رو رہی ہوں۔ تبھی اماں نے کہا:
"کیا ہوا ہے بیٹی؟ اتنے اچھے موقع پر روتے نہیں ہیں۔"
میں نے اماں سے کہا:
"اماں! مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں ایک رات بھی وہاں نہیں رہ سکوں گی۔ بلال مجھے آج ہی طلاق دے دے گا۔"
اماں حیرت سے میری طرف دیکھنے لگیں اور بولیں:
"ایسا نہیں کہتے! کچھ اچھا سوچو۔"
میں نے آہستگی سے کہا:
"اماں! میں آپ کو حقیقت بتا رہی ہوں۔"
اماں بولیں:
"آخر وجہ کیا ہے؟ تم اس طرح کی باتیں کیوں کر رہی ہو؟"
میں خاموش رہی۔ بھلا میں اماں کو کیا بتاتی؟
شادی ہو کر رخصتی ہوئی تو میرا پورا وجود کانپ رہا تھا۔ میں دلہن بنی بلال کی سیج پر بیٹھی تھی۔ بلال کمرے میں آیا، تو میری طرف دیکھ کر اس نے گہرا سانس لیا۔ اس کے چہرے پر خوشی یا چمک ذرا بھی نہیں تھی۔ مجھے حیرت ہوئی کہ آخر اسے کیا ہوا ہے؟ خوشی کی بجائے اس کے چہرے پر بوجھ کیوں ہے؟
وہ میرے پاس آ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا:
"نازیہ! میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔"
میں نے کہا:
"ہاں بلال! بولو، کیا کہنا چاہتے ہو؟"
لیکن اس نے جو راز بتایا، وہ سن کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ میں نے نظریں چرا لیں، نہ جانے کیوں دل میں ایک عجیب سی بے چینی پھیل گئی تھی۔
میں نے ہمت کر کے کہا:
"بلال! میں بھی تمہیں ایک حقیقت بتانا چاہتی ہوں۔"
اور پھر جب میں نے اسے حقیقت بتائی تو وہ غصے سے پاگل ہو گیا۔ اسی وقت اس نے مجھے طلاق ۔۔۔۔۔
میرا نام نازیہ ہے۔ میری عمر 50 سال ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں ماسٹرز کے امتحانات دے رہی تھی۔ میں بے حد خوبصورت، جوان اور پُرکشش تھی۔ جو ایک مرتبہ مجھے دیکھتا، وہ دوبارہ مڑ کر دیکھے بغیر نہیں رہتا تھا۔ میں اپنے پورے خاندان میں مشہور تھی: پڑھی لکھی، ذہین اور اوپر سے بلا کی حسین۔ خاندان کے لڑکے مجھ سے شادی کرنے کے لیے ترستے تھے۔
فطری طور پر میرے اندر اپنی خوبصورتی پر غرور سا آگیا تھا۔ مگر وہ کہتے ہیں نا کہ جس میں غرور آ جائے، پھر اس کا ٹھکانا نہیں رہتا۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔
ایک روز میرا ماسٹرز کا آخری امتحان تھا۔ امتحان دے کر جب میں گھر لوٹی تو اندر گھپ اندھیرا چھا گیا۔ گھر کے اندر سے اماں کی چیخنے اور رونے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں دوڑتی ہوئی اندر گئی۔ سامنے کا منظر دیکھ کر میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ میرے سر پر جیسے آسمان ٹوٹ پڑا۔
ابا کا انتقال ہو چکا تھا۔
اماں ان کی چارپائی کے پاس بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں۔
میں بھاگتے ہوئے اماں کے پاس پہنچی۔ میری آنکھوں کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ میں نے کہا:
"اماں! یہ کیسے ہو گیا؟ نہیں! ابا ہمیں چھوڑ کر نہیں جا سکتے!"
لیکن حقیقت کو بدلا نہیں جا سکتا۔ جانے والے کو روکا نہیں جا سکتا اور نہ ہی اس کے ساتھ جایا جا سکتا ہے۔
ابو کے جانے کے بعد ہمارے حالات یکدم سخت ہو گئے۔ مشکلات نے ہر طرف سے ہمیں گھیر لیا۔ گھر میں دو وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ہو گیا۔ ابا کی تھوڑی بہت جمع پونجی تھی، وہ بھی دو مہینے میں ختم ہو گئی۔
پھر ایک دن میں نے اماں سے کہا:
"اماں! اتنی پڑھائی کا کیا فائدہ؟ اگر آپ اجازت دیں تو میں کسی جگہ نوکری کر لوں۔ میرے امتحانات کا نتیجہ بھی آ گیا ہے اور میں نے اچھے نمبروں کے ساتھ کامیابی حاصل کی ہے۔"
اماں نے کہا:
"ہاں بیٹی، ضرور! اب تو تم ہی ہمارا سہارا ہو۔"
یوں مجبوریوں کے تحت میں ایک انٹرنیشنل کمپنی میں نوکری کرنے لگی۔ شروع میں سب کچھ ٹھیک چلتا رہا، لیکن پھر آہستہ آہستہ حالات بدلنے لگے۔ سب کی پروموشن ہونے لگی، مگر میری ترقی رک گئی۔
کافی غمگین تھی، مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ جو نئے ورکر تھے، ان سب کی پروموشن ہو گئی، مگر میری پروموشن ابھی تک نہیں ہوئی تھی۔ میں نے سوچا کہ اپنے باس سے بات کروں۔
لیکن میرا باس اچھا انسان نہیں تھا۔ اس نے صاف کہا:
"میرے ساتھ دوستی کرو، پھر پروموشن ہوگی۔"
میں نے بے یقینی سے اس کی بات سنی اور خوف کے مارے سیدھی گھر آ گئی۔
گھر پہنچی تو اماں میرے پاس آئیں اور کہنے لگیں:
"بیٹی! تمہاری تنخواہ سے گھر کا خرچ پورا نہیں ہو رہا۔ کیوں نہ میں لوگوں کے کپڑے سی لیا کروں؟"
اماں کی یہ بات سن کر میرا دل ٹوٹ گیا۔ کیونکہ اماں کبھی ایسی نہ تھیں۔ ابا تو انہیں ہمیشہ سر آنکھوں پر بٹھا کر رکھتے تھے۔ میں نے اماں کو تسلی دی اور کہا:
"اماں! پریشان نہ ہوں۔ میری جلد ہی پروموشن ہو جائے گی، تنخواہ بڑھ جائے گی، اور سب کچھ بہتر ہو جائے گا۔"
اماں خوش ہو گئیں اور بولیں:
"یہ تو بہت خوشی کی بات ہے!"
اگلے روز دفتر گئی تو میرے سر پر صرف پیسوں کا بھوت سوار تھا۔ میں نے اپنے ضمیر کو دبا کر، اپنی مجبوری کے ہاتھوں مجبور ہو کر، اپنے باس کو خود پر اختیار دے دیا۔ اُس وقت مجھے ہر جگہ بس مجبوری ہی دکھائی دے رہی تھی۔ میری آنکھوں پر پیسوں کی ایسی پٹی بندھ گئی تھی کہ میرے لیے گناہ اور ثواب میں کوئی فرق باقی نہیں رہا تھا۔
ادھر میں نے باس کو خوش کیا اور اُدھر میری ترقی ہونے لگی۔
اماں بہت خوش تھیں۔ مگر میں اندر سے دن بدن افسردہ رہنے لگی۔ کیونکہ اب میں دفتر کام کرنے نہیں بلکہ اپنے باس کو خوش کرنے جایا کرتی تھی۔ کئی بار میرا دل چاہتا کہ نوکری چھوڑ دوں، مگر اب کیا فائدہ تھا؟ باس مجھے ہر روز تنخواہ کے علاوہ الگ سے بھی پیسے دیتا۔
اکثر اماں کہتیں:
"تمہارا باس تو بہت رحم دل ہے۔"
میں اندر ہی اندر ٹوٹ جاتی۔ بھلا میں اماں کو کیا بتاتی کہ وہ کیوں اتنا مہربان ہو رہا ہے؟
میرا باس تقریباً 40 سال کا تھا۔ اور چونکہ میں خوبصورت تھی، اس لیے اس کی نظر ہمیشہ مجھ پر رہتی تھی۔
اسی دوران میرا رشتہ میرے کزن بلال سے طے ہو گیا۔ میری چچی اب شادی کرنا چاہتی تھیں۔ چند دن بعد شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔
منگیتر میرا کزن تھا، مگر میرا دل ڈر سے کانپ رہا تھا۔ مجھے خوف تھا کہ شادی کی رات یہ راز نہ کھل جائے کہ میں پہلے ہی اپنی عزت کھو چکی ہوں۔
جیسے ہی سہاگ رات کو وہ میرے قریب آیا، اس نے خود ایک ایسا انکشاف کیا جسے سن کر میرے اوپر آسمان ٹوٹ پڑا۔
کیونکہ بلال نے اعتراف کیا کہ وہ بھی چار عزت دار لڑکیوں کی عزت پامال کر چکا ہے۔
وہ بولا:
"نازیہ! میں نے یہ سب اس لیے تمہیں پہلے ہی دن بتا دیا ہے تاکہ ہم ایک نئی زندگی شروع کر سکیں۔"
یہ سن کر مجھے لگا کہ شاید میرا کزن واقعی میرے ساتھ مخلص رشتہ نبھانا چاہتا ہے۔
میں کیوں نہ اس کو سچ کہوں۔ میں نے اپنے کزن سے کہا کہ میں بھی تمہیں ایک سچ بتانا چاہتی ہوں۔ وہ کافی حیران ہوا اور مجھے کہنے لگا: کیسا سچ؟ البتہ وہ اپنی کہانی سنا کر کافی مطمئن تھا۔
میں نے جب اسے بتایا کہ میں اپنی عزت پہلے ہی کھو چکی ہوں تو وہ ایک دم آگ بگولہ ہوگئے اورآنکھوں میں انگارے آگئے اور کہنے لگا: یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ اس کا غصہ دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ میں نے اسے بتا کر غلطی کی ہے، مجھے کچھ نہیں بتانا چاہیے تھا۔ مگر جھوٹ بولنے یا چھپانے کا فائدہ بھی تو نہ ہوتا۔ میرے شوہر کو تو سب کچھ پتا چل ہی جانا تھا۔
وہ غصے میں ادھر اُدھر ٹہل رہا تھا اور میں مارے خوف کے اس کی طرف دیکھ رہی تھی کہ نہ جانے اب وہ کیا کرے گا۔ کیا وہ سب گھر والوں کو میری حقیقت بتا دے گا؟ اگر ایسا ہوا تو میری کتنی بدنامی ہوگی۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
یہ مجھ سے کیا ہو گیا تھا! میں چند پیسوں کے عوض اپنی عزت گنوا بیٹھی تھی اور مجھے اس بات کا اندازہ بھی نہیں رہا تھا کہ کل کو مجھے شادی کے بعد کسی اور کے گھر جانا ہے۔ ساری رات ایسے ہی گزر گئی، نہ میں پل بھر کو سو سکی اور نہ ہی میرا شوہر سویا۔ مگر اس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔ میں اس کا چہرہ دیکھتی رہی اور وہ سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھا رہا۔
صبح ہوئی تو میری سانس میرے کمرے میں آئی۔ وہ کافی خوش تھی اور کہنے لگی: سب تم دونوں کا انتظار کر رہے ہیں، چلو جلدی سے نیچے آ جاؤ۔ میں نے گھبرا کر اپنے شوہر کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں کو دیکھ کر میرے اندر خوف کی ایک لہر دوڑ گئی، کیونکہ اس کی آنکھیں لال انگارہ تھیں۔
میری سانس کمرے سے جا چکی تھی۔ تبھی میں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی اپنے شوہر کے پاس گئی اور اس سے کہا: ایک مرتبہ مجھے معاف کر دو، ہم دونوں ایک نئی زندگی شروع کریں گے۔ مگر میرا شوہر غصے میں اٹھ کر کمرے سے باہر چلا گیا۔
میں افسردہ سی کمرے سے باہر نکلی لیکن شوہر گھر پر موجود نہیں تھا۔ وہ گھر سے ہی باہر جا چکا تھا۔ سارا دن گزر گیا مگر میرا شوہر گھر نہ آیا۔ رات ہوئی تو میں کمرے میں آرام کر رہی تھی، لیکن ایک بےچینی میرے دل میں ہلچل مچا رہی تھی۔ مجھے اس بات کا احساس تھا کہ میں نے کتنی بڑی غلطی کی ہے، مگر اب میں کیا کر سکتی تھی؟ جو ہو گیا تھا، وہ تو بدلا نہیں جا سکتا تھا۔
رات گئے دروازہ کھلا تو میں چونک کر دروازے کی طرف دیکھنے لگی، جہاں میرا شوہر کھڑا تھا۔ وہ خاموشی سے کمرے میں داخل ہوا اور پھر صوفے پر جا کر سو گیا۔ دن ایسے ہی گزر رہے تھے۔ میرے شوہر نے کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا مگر اس دن کے بعد سے اس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ نہ وہ میری طرف دیکھتا تھا اور نہ ہی مجھ پر توجہ دیتا تھا۔ نہ جانے کیوں، مگر اس کی یہ بے رخی مجھے بہت چبھ رہی تھی۔
ایک روز میں نے اپنے شوہر سے بات کرنے کا ارادہ کیا۔ جب شوہر گھر آیا تو میں اس کے قدموں میں بیٹھ گئی اور کہا: کیا تم مجھے ایک موقع نہیں دے سکتے؟ میں تمہاری بیوی ہوں، مانتی ہوں کہ مجھ سے گناہ ہوا ہے، مگر گناہ تو تم سے بھی ہوئے ہیں۔ پھر۔۔۔
میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں کر رہے ہو؟ میں بھی تمہیں معاف کرنے کے لیے تیار ہوں، تو کیا تم مجھے معاف نہیں کر سکتے؟
میرے شوہر نے غصے سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا:
"تم جانتی ہو کہ ایک عورت کی عزت اس کے لیے سب سے زیادہ معنی رکھتی ہے، مگر تم نے چند پیسوں کی خاطر اپنی عزت گنوا دی۔"
شوہر کی یہ بات سن کر مجھے احساس ہوا کہ مرد چاہے جتنا بڑا گناہ کر لے، اس کی معافی کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ وہ مرد ہے۔ اور اگر عورت سے وہی گناہ سرزد ہو جائے تو اسے قبر کی دیواروں تک یاد رکھا جاتا ہے۔
میرے شوہر نے چار لڑکیوں کی عزت پامال کی تھی مگر اسے صرف میرا گناہ نظر آ رہا تھا۔ میری مجبوری یہ تھی کہ مجھے اپنے شوہر کے ساتھ ہی رہنا تھا۔ میں اسے چھوڑ کر کہیں جا نہیں سکتی تھی۔ اگر چھوڑ دیتی تو میری ماں جیتے جی مر جاتی، اور میں اپنی اماں کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی تھی۔
میں خاموشی سے سر جھکا کے کھڑی ہو گئی۔ دل تو چاہا کہ اپنے شوہر کو بھی اس کی اصلی حقیقت بتاؤں، مگر میں اس وقت بے بس تھی کیونکہ اس کے پاس مجھے چھوڑنے کے لیے صرف تین الفاظ تھے، اور مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں وہ مجھے طلاق نہ دے دے۔
پانچ مہینے گزر گئے مگر ابھی تک میرا شوہر میرے قریب نہیں آیا تھا۔ اس نے تو کبھی مجھے چھوا بھی نہیں تھا۔ لیکن ایک روز میری حالت خراب ہونے لگی۔ میری ساس مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ مگر ڈاکٹر کی بات سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے، جب اس نے کہا کہ میں حاملہ ہوں۔
میری ساس کی خوشی کی تو کوئی انتہا نہ رہی، مگر میرے چہرے کا رنگ سفید پڑ گیا۔ سانس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی:
"کیا ہوا ہے؟ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ کیا تم اس خبر سے خوش نہیں ہو؟"
میں نے مروّتاً ساس کی طرف مسکرا کر دیکھا اور کہا:
"نہیں، ایسی بات نہیں ہے۔ بس ایسے ہی بے چینی ہو رہی ہے۔"
تبھی وہ کہنے لگی:
"ایسی حالت میں ایسا ہوتا ہے، مگر تم فکر نہ کرو، میں تمہارا بہت خیال رکھوں گی۔"
جب ہم گھر واپس آئے تو میری ساس نے میرے شوہر کو سب حقیقت بتا دی۔ میرا شوہر جو پہلے ہی غصے میں تھا، مزید آگ بگولا ہو گیا۔ مجھے لگا کہ اب میری حقیقت سب کے سامنے آ جائے گی، مگر میرا شوہر خاموشی سے گھر سے باہر چلا گیا۔
مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ سب سے میری سچائی کیوں چھپا رہا ہے۔ کیا اس ڈر سے کہ وہ بھی گناہ کر چکا تھا اور کہیں میں سب کے سامنے اس کی حقیقت نہ بتا دوں؟ بہرحال نو مہینے یوں ہی گزر گئے اور میرے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی۔
میں جب گھر آئی تو میرے چہرے پر خوف کے اثرات تھے، مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میرا شوہر میرے پاس آیا اور مجھے پیار کرنے لگا۔ اس نے کہا:
"میں تم سے معافی مانگتا ہوں۔ مرد ذات ایسی ہی ہوتی ہے، اپنے گناہ اسے کبھی نظر نہیں آتے، لیکن اگر دین داری سے کوئی گناہ ہو جائے تو اسے کبھی معافی نہیں ملتی۔"
میں نے اپنے شوہر کی طرف حیرت اور بے یقینی سے دیکھا۔ تبھی وہ کہنے لگا:
"شاید اللہ نے ہمیں اس بچی سے نوازا ہے تاکہ ہم لوگ سبق حاصل کر سکیں۔ یہ تمہاری بیٹی ہے۔ تمہیں اسے دیکھ کر یہ خوف ہوگا کہ کہیں یہ بڑی ہو کر وہی سب نہ کرے جو تم نے کیا۔ اور میں اس کی دیکھ بھال کر کے شاید اپنا بوجھ ہلکا کر سکوں کہ میں نے جو کسی کی بیٹیوں کے ساتھ کیا، اب کسی کی بیٹی کی اچھی تربیت اور اس کی حفاظت کر کے اس کا ازالہ کر سکوں۔"
میں نے اپنی بیٹی کی طرف دیکھا تو وہ بالکل میری طرح تھی۔ تبھی میرے شوہر نے کہا:
"میں ایک دم سے تو سب کچھ نہیں بدل سکتا، مگر میں پوری کوشش کروں گا کہ تمہارا خیال رکھ سکوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ہم دونوں ایک دوسرے کا راز ہمیشہ راز رکھیں۔ ایک وقت تھا جب میں تمہیں طلاق دینا چاہتا تھا، مگر نہ جانے کون سی طاقت تھی جو مجھے روک رہی تھی۔ میں چاہ کر بھی تمہیں طلاق نہیں دے سکا۔ شاید اللہ نے ہمیں ہدایت کا راستہ دکھانا تھا۔"
میں اپنے شوہر کی باتیں غور سے سن رہی تھی اور جانتی تھی کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے بالکل درست ہے۔ پہلے پہل تو اکثر میرا شوہر مجھ پر غصہ اتارتا، مگر آہستہ آہستہ وہ بدلنے لگا۔ اب وہ مجھ سے بس کام کی بات کرتا، ورنہ ہم دونوں ایک دوسرے سے الگ الگ رہتے تھے۔
البتہ میری بیٹی کے ساتھ وہ بہت شفقت سے پیش آتا اور اس کا ہر طرح سے خیال رکھتا تھا۔
میری بیٹی تین سال کی ہو چکی تھی۔ میرا شوہر اسے اکثر باہر گھمانے لے جاتا اور اس کی ہر ضرورت پوری کرتا۔ لیکن ہم دونوں ابھی تک ایک دوسرے کے ساتھ بالکل ٹھیک نہیں ہو سکے تھے۔ اور میں جانتی تھی کہ شاید ہم کبھی ٹھیک ہو ہی نہیں پائیں گے، کیونکہ ہم دونوں سے ایسا بڑا گناہ سرزد ہوا تھا کہ اس کا بوجھ دل سے اتارنا ممکن نہیں رہا۔
میں نے پھر بھی اپنے شوہر کی عزت کرنا نہ چھوڑا۔ وہ جس طرح چاہتا، میں ویسا ہی کرتی۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ اگر میں اس کی ہر بات مانوں گی تو شاید میرے دل سے یہ بوجھ کچھ ہلکا ہو جائے گا کہ میں نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ دوسری طرف میرا شوہر بھی پوری محنت میں لگا رہتا۔ شاید وہ بھی اپنے دل کا بوجھ اتارنے کی کوشش کر رہا تھا۔
ایک بات میں اچھی طرح جان چکی تھی کہ عورت کی عزت ہی اس کے لیے سب کچھ ہوتی ہے۔ آج میری زندگی جس مشکل میں تھی، اس کی وجہ میں خود تھی۔ کاش میں نے اپنے آپ کو سنبھال کے رکھا ہوتا تو آج کھل کے جی سکتی، یوں گھٹ گھٹ کر زندگی نہ گزارنی پڑتی۔ میرے لیے تو یہی سزا کافی تھی کہ میں اپنی زندگی بے سکونی میں گزار رہی تھی۔ دل پر ہمیشہ ایک بوجھ رہا، جو میں چاہ کر بھی اتار نہیں پائی۔
انسان بے دھیانی اور جذباتی پن میں گناہ تو کر لیتا ہے، مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کو اپنی غلطی کا احساس بہت جلد ہو جاتا ہے۔ زندگی کے اتنے سال گزرنے کے بعد بھی مجھ میں ہمت باقی نہیں تھی۔ اکثر جب میں اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرتی تو وہ مجھے نظر انداز کر کے کبھی گھر سے نکل جاتے یا کبھی مجھے جھڑک دیتے۔
اگر آج تک ہمارا رشتہ قائم تھا تو اس میں سب سے زیادہ ہاتھ میرے شوہر کا تھا۔ اگر وہ بھی جذباتی ہو کر مجھے طلاق دے دیتے تو ہماری زندگیاں اسی وقت ختم ہو جاتیں۔ ہم انا کے اندھے راستے پر چل پڑتے، مگر اس سب سے نہ صرف ہماری زندگیاں برباد ہوتیں بلکہ ہم سے جڑے تمام رشتے بھی ایک دوسرے سے دور ہو جاتے۔
شوہر کے دماغ میں یہی سب چلتا رہا۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے مجھے کبھی طلاق نہیں دی۔
ایک روز میں نے اپنے شوہر سے کہا:
"میں ہمیشہ آپ سے طلاق کا مطالبہ کرتی رہی، مگر آپ نے مجھے کیوں نہ چھوڑا؟ آپ کے پاس تو اچھا موقع بھی تھا۔"
وہ مسکرا کر کہنے لگے:
"ہم دونوں بہت جذباتی ہیں، مگر میں اتنا خود غرض نہیں ہوں۔ اگر میں تمہیں چھوڑ دیتا تو سوچو، ہمارے کتنے رشتے ایک دوسرے سے دور ہو جاتے۔ تمہاری اماں کا کیا حال ہوتا؟ اور تمہاری بہن، اس کی شادی کرنا کتنا مشکل ہو جاتا۔ بس یہی سب سوچ کر میں نے تمہیں کبھی چھوڑنے کا ارادہ نہیں کیا۔"
آج میں اپنے شوہر کے ساتھ خوش نہ سہی، مگر مطمئن زندگی گزار رہی ہوں۔
(ختم شد)
0 تبصرے